گڈانسک، پولینڈ:
کانفرنس میں سید سبطین شاہ کے مقالے کا موضوع ’’پاکستان میں انتہاپسندی کے مختلف ادوار کا تقابلی جائزہ‘‘ تھا۔ انھوں نے کہاکہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کی مختلف داخلی اور خارجی وجوعات ہیں۔ اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، ماضی کی حکومتوں کی جانبدارانہ اور کمزور سیاسی، سماجی اور اقتصادی پالیسیاں اور بیرونی مداخلت بھی ان وجوعات میں شامل ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے اسطرح کے مسائل کا پایدار اور ٹھوس حل تلاش کرنے کے بجائے وقت گزارانے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے اقدامات کئے گئے جو وقتی طور پر مسئلے کو ٹال سکتے ہیں اور مسائل کو عارضی حل تو دے سکتے تھے لیکن ان اقدامات کے دور رس نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
ریسرچ سکالر سید سبطین شاہ نے کہاکہ پاکستان کے عوام انتہائی پرامن ہیں اور اسلام کے باہمی بھائی چارے و اخوت کے اصولوں اور اعتدال پسندی پر یقین رکھتے ہیں لیکن تین چار عشروں سے اسی ملک میں ایسے عناصر پروان چڑھنا شروع ہوگئے جو بلاتفریق مسلک، مذہب اور قبیلہ نہتے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان عناصر سے مساجد، گرجاگھر اور دیگر عبادتگاہیں محفوظ نہیں۔ حتیٰ فوج کے لوگ اور فوجی عمارات بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنی ہیں۔
تین چار دھائیاں گزر گئیں، بہت سے عسکری اقدامات ہوئے اور اصلاحات کی بات ہوئی لیکن اس کے باوجود پاکستان پھر وہاں ہی کھڑا ہے۔ بلکہ بعض اوقات حالات دن بدن بدتر ہوتے نظر آتے ہیں۔
انھوں نے زور دیا کہ اس طرح کے مسائل صرف عسکری اقدامات سے حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے اس سے زیادہ موثر سیاسی اور سماجی سطح پر ٹھوس اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انتہاپسندانہ سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی سطح پر بشمول معاشی اور سماجی انصاف جیسے اقدامات کی ضرورت ہے جن کے دور رس نتائج برآمد ہوں۔